Add To collaction

31-Aug-2022 لیکھنی کی کہانی -

Novel name: یہ کیسا عشق ہے 


 Writer name: Syeda Ramsha Touqeer

Status: complete

Instagram: novelistic_ramsha

Facebook account : syeda ramsha touqeer

Gener : romantic , hate , social , kidnapping , love story 

Description:
یہ کہانی ہے ،ارسل ہمدانی اور ہانیہ شہروز کی ، 
انا ، محبت اور نفرت کی جنگ کی ،
کچھ وعدوں کے ٹوٹ جانے کی ، لوگوں کے بدل جانے کی 
زمانے سے خفا ہو جانے کی ، کانٹوں سے دل لگانے کی ، 
انتقام کے انوکھے انداز کی ، معصوم چہرے کے پیچھے چھپے ایک دغاباز کی ،
عشق کے اس مقام کی جہاں دل کسی اور کو چاہے تو گناہ لگتا ہے ۔

.......... .  .  .  ...... .  .  . .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  . .  novelistic_ramsha@
............ .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
Second episode  

" بھائی کیا ہوا ؟ بات کی تم نے ماریا سے ؟ یار اب امی بھی رشتہ ڈھونڈنے میں لگیں ہیں ، بس کچھ بھی کر کے لڑکی کو راضی کرو بھائی ، اب امی کو کون سمجھاۓ کہ میں ڈائیناسور کی آخری نسل کوئی ہوں ، جو شادی نہیں کی تو نسل آگے کیسے بڑھے گی ۔" زین نیازی کا صبر اب جواب دے چکا تھا ۔
" ہاں بھئ سب بات ہو گئی ہے ، تمہیں بلایا گیا ہے جناب ۔ "
" کیا واقعی ؟ " وہ تعجب سے پوچھ رہا تھا ۔۔
" ہاں ہاں بھائی ، کیا میں جھوٹ بولونگا ؟ " وہ اس بار زین سے کھیل رہا تھا اور وہ اٌسے سچ سمجھ بیٹھا تھا ۔
" ارے بھائی یقین ہے مجھے تجھ پر ، چل میں آتا ہوں اُس سے مل کر دعا کر بات بن جاۓ ۔" 
ماریا تم نے مجھے بلایا تھا ؟ خیریت ؟ 
" نہیں میں نے نہیں بلایا ۔ " ہاں البتہ میں نے دل میں ضرور سوچا تھا کہ تم خود آؤ ۔ 
اچھا تم نے نہیں بلایا ، تو چلو میں خود ہی آگیا ، will u marry me miss maria rajput
یس لیکن میری ایک شرط ہے ۔
کیا شرط ؟ 
" پہلے تم یہ پتہ کر کے بتاؤ کہ ہانیہ کہاں ہے؟ اور یہ صرف تم ہی معلوم کر سکتے ہو ؟ اور مجھے شک ہے کہ اس کے لاپتہ ہونے کے پیچھے ارسل کا ہاتھ ہے ۔ " وہ ہر حال میں ہانیہ کا پتہ لگانا چاہ رہی تھی ۔
" کیا یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟ ایسا نہیں ہو سکتا ، لیکن اگر تمہیں شک ہے تو میں ضرور پتہ لگاؤنگا ، میرا وعدہ ہے تم سے ۔ "
" پکا وعدہ ہے نہ ؟ توڑو گے تو نہیں ؟ "
" ہاں یار پکا وعدہ ، نہیں توڑنگا ۔ "
" ٹھیک ہے میں نے بھروسہ کیا اور امید کرتی ہوں کہ تم اپنا وعدہ ضرور پورا کرو گے ۔" 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


" یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھی ، چاۓ پیتی اور دوستوں سے باتیں کرتی وہ زین کو بہت معصوم اور خوبصورت لگ رہی تھی ۔" وہ ایک طرف اٌسکو دیکھ رہا تھا اور دوسری طرف سے اُسکی باتیں سن رہا تھا ۔
" وہ بےساختہ چِلّائی تھی ، تم ؟ تم کہاں تھی اتنی دنوں سے ؟ " اسکی چِلّانے کی آواز اتنی بلند تھی کہ زین کی اور وہاں موجود تمام لوگوں کی نگاہ ہانیہ پر ٹہر گئی تھی ۔
زین کو اپنا وعدہ یاد آیا اور اُسے لگا کہ جیسے اب وہ اس سے ہمیشہ کے لئے دور چلی جاۓ گی ، وہ بےچین ہو گیا تھا ، جیسے ہی وہ اٹھا ، چائے کا کپ چھلک گیا ۔ سب اس کے اس ردعمل پر اُسے دیکھنے لگے ، تو اُسے وہیں بیٹھنا پڑا ۔
" آہستہ بولو ، سب ہماری طرف ہی متوجہ ہیں ماریا ۔ " اُسنے ماریا کو تاکید کی ۔
" اوہ ! یار میں جذباتی ہوگئی تھی ، بتاؤ اب جلدی کہاں تھی اور کیوں نہیں آرہی تھی اتنے دنوں سے ؟؟ " تم جانتی ہو میں کتنا پریشان تھی ، جلدی بتاؤ ۔ 
" میں ، میں نے نکاح کر لیا ہے ۔ " وہ هكلا رہی تھی ۔ 
" کیا واقعی ؟ کب س سے ؟ کب اور کیسے ؟ " 
" اف اللّه اتنے سوال ، تھوڑا سانس لےلو میری جان ۔ " وہ ماریا کا بازو تھامے اسے وہاں سے لے گئی تھی ، کلاس میں جا کر ماریا سو سو کرنے میں لگ گئی اور ہانیہ اسے ٹیشو پکڑانے لگی ، اب بس کرو ماریا ، اب تو ٹیشو بھی ختم ہونے والے ہیں ۔اسکی اس بات پر پیچھے بیٹھی فرح بھی ہنس پڑی تھی ۔ 
" اچھا نہیں رو رہی اب یہ بتاؤ ایسی بھی کیا آفت آ پڑی تھی جو چھپکے چھپکے نکاح كرلیا ۔" مجھے بتانا ضروری بھی نہیں سمجھا ، نہ اپنے ماں باپ کو ، جانتی بھی ہو سب کی کیا حالت تھی۔ " وہ کچھ خفا تھی ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


" بیٹا کہا چلی گئی تھی تم ؟ " آنکھوں میں آنسوں لئے وہ ہانیہ کو کہہ رہی تھی ۔
" امی ، مجھ سے غلطی ہوگئی تھی کہ میں نے آپکو بھروسے میں نہیں لیا اور خود ہی سے نکاح کر لیا ۔ کیا یہ کیا کہہ رہی ہو تم بیٹا ۔" وہ حیران و پریشان ہوگئی تھی ۔
" یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟ نکاح کرلیا ہے ، ایک بار بھی ماں باپ کی عزت کا خیال نہیں آیا اور نکاح کا مطلب بھی معلوم ہے یا میٹرک کا فارم سمجھ کر پُر کردیا ہے ؟؟ " وہ غصّے سے بھرا ہوا تھا ۔
" بابا مجھے معاف کر دیں ، مجھے معلوم ہے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن حالات کب ، کس طرح ایسے ہو گئے ، کچھ سمجھ ہی نہیں آیا ۔" ندامت اسکی آنکھوں میں صاف نظر آرہی تھی ۔
" میں معاف کرونگا میری بیٹی لیکن میری ایک شرط ہے ۔ "
" کیا شرط ہے بابا ؟ "
" تمہیں چھوڑنا ہوگا اسے ، تم نے جس سے بھی نکاح کیا ہے اور تمہاری شادی اس لڑکے سے ہو گی ، جس سے میں چاہتا ہوں ۔"
" نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہے ، کیوں کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں ۔"
" آخر اس لڑکے نے تمہیں ایسا کیا دے دیا ، جو میں تمہیں نہیں دے سکا ، آخر کیا کمی رہ گئی میری پرورش میں جو آج تم میرے سامنے " نہیں " کہہ رہی ہو ، مجھے انکار کر رہی ہو ؟ اپنے باپ کو ؟ "
" ہاں کیوں کہ اب وہ میرا شوہر ہے ، میرا سر تاج ہے اور سب سے بڑھ کر میرا مزاجی خدا ہے اور اب میرے لئے ضروری یہ ہے کہ میں اس کی ایک ایک بات مانوں اور آپ کی اطلاع کے لئے میں آپکو بتا دوں کے آپ نے مجھے خود بھی یہ اجازت دی تھی کہ میں جسے چاہوں اپنے لئے پسند کر سکتی ہوں ، تو میں نے پسند کر لیا ۔ " وہ یہ سب دل سے نہیں کہہ رہی تھی لیکن وہ اپنے باپ کی اس شرط پر کچھ حیران سی رہ گئی تھی اور کیوں نہیں ہوتی حیران ، وہ حیران ہونے والی بات تھی کہ جس باپ نے تمام عمر اس کی ہر خواہش پوری کی وہ آج اسے ، اسکی محبت سے دور ہونے کیسے کہہ رہے تھے ۔
" میں تمہیں جانے نہیں دے سکتا ہوں ۔" مسٹر شہروز نے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا تھا۔
 " کبھی کبھی کچھ بھی بولنے کا دل نہیں چاہتا ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے احساس کو صحیح الفاظ میں ڈھال نہیں سکیں گے ور اگر ڈھال بھی لیں تو سامنے والا شاید سمجھ نہیں سکے گا اور اس دن میری ایسی ہی حالت تھی ۔ "


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


" مجھے چھوڑو کون ہو تم لوگ ؟ کیوں قید کر رکھا ہے مجھے؟ کیا دشمنی ہے مجھ سے ؟ آخر چاہتے کیا ہو تم لوگ ؟ " وہ زور زور سے چلا رہی تھی ۔
" تمہیں یہاں اس لئے لایا گیا ہے کیوں کہ تمہارا اور میرا نکاح ہے آج ۔ " وہ اسے بتا رہا تھا ۔
" آخر تم ہو کون ؟ میں تو تمہیں جانتی تک نہیں ہوں ، اور کیا تم پاگل ہو گئے ہو ، ایک شادی شدہ لڑکی سے نکاح کرو گے ۔ "
" میں میجر علی پاشا ہوں اور تم ، تم جھوٹ کہہ رہی ہو ، تمہاری شادی ہو ہی نہیں سکتی ، تم صرف میری ہو " میجر علی پاشا " کی ، صرف اور صرف میری اور اگر تم سچی ہو تو دکھاؤ نکاح نامہ ۔ "
" تم کیا کوئی نفسياتی ہو ، کوئی پاگل ہی ہوگا جو نکاح نامہ ساتھ میں لے کر گھومتا ہوگا ، تم مجھے جانے دو ، میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں تمہیں نکاح نامہ دیکھاؤنگی . "
" تم کیا مجھے پاگل سمجھتی ہو ہانیہ میڈم ؟ " وہ مذاق اڑاتے والے انداز میں بولا ۔
" کک کیا مطلب ؟ میں کیوں تمہیں پاگل بناؤنگی ؟ " وہ پریشانی سے بولی تھی ۔
تھوڑی دیر میں سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاۓ گا ، آؤ تم بھی میرے ساتھ ناشتہ کرو ۔
" مجھ مجھے پپ پلیز جانے ددو ۔" وہ بمشکل اپنے الفاظ ادا کر پائی تھی ۔
" ایسے کیسے جانے دوں ہانیہ میڈم ؟ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ؟ آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا ۔ "وہ تمسخر سے ہنس رہا تھا ، حد سے زیادہ سفاكیت تھی اسکی ہنسی میں ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سنو!!
مجھ سے نہیں ہوتا،،،
دلیلیں دوں ،،،
مثالیں دوں،،،،
میری آنکھوں میں لکھا ہے ،،،
مجھے تم سے محبت ہے.،،،،
" کیا اب تم مجھ سے دور چلی جاؤ گی ؟ کیوں کہ ہانیہ کو میں نے نہیں ڈھونڈا ہے وہ خود آئی ہے ۔ " وہ بہت معصوم چہرہ بنا کر پوچھ رہا تھا ۔
" ارے نہیں بھئ ، جب ماریا راجپوت نے كمٹمنٹ کرلی تو وہ اسے پورا کرے گی ، یہ" راجپوت " کی خوبی ہوتی ہے کہ جو کہہ دیتے ہیں ، وہ کرتے ہیں ۔ " وہ اسے اپنی خوبی بتا رہی تھی ۔ 
" اوہ ! ایسا ہے کیا ؟ چلو اگر ایسا ہے تو بہت ہی اچھی بات ہے کہ میری ہونے والی بیوی میں اتنی اچھی خوبیاں پائی جاتی ہے ۔ " وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
شکریہ شکریہ ! وہ مسکرا رہی تھی ۔
" ویسے ایک بات بتاؤ ؟ میں نے سنا ہے تمہاری بیسٹ فرینڈ نے نکاح کرلیا ہے ؟ کس کے ساتھ کیا ہے ؟ تمہیں کچھ علم ہے ؟ " وہ سوال پر سوال کر رہا تھا ۔
" نہیں مجھے نہیں معلوم یہ تو کس کے ساتھ کیا ہے نکاح کیوں کہ میری اس سے زیادہ بات نہیں ہو پائی اور عین ایک بجے وہ گھر چلی گئی اس کے بات سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اس سے ۔ "
اچھا اچھا ۔
" زین جلدی میرے ساتھ چل یار ۔"
" یہ تو بتا ، ہوا کیا ہے ؟ "
" یار ابھی تو چل ، میں تجھے سب بتاتا ہوں ۔"
" اچھا چل کہاں جا رہا ہے ۔"
" زین ، میں نے کہا نا ابھی کچھ مت پوچھ ، میں تجھے سب بتاتا ہوں ۔ "
وہ کراچی کی سڑکوں پر اُسے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پاگل ہو رہا تھا اور ہر آتے جاتے لوگوں کو اُس کی تصویر دکھا کر پوچھ رہا تھا " بھائی آپ نے اِسے کہیں دیکھا ہے ۔" 
" کیا تم ارسل ہو ؟ " اُسکی موبائل کی سکرین پر کسی کا میسج چمکا تھا ۔
" ہاں ، میں ہی ہوں اور آپ کون ؟ " اس کے بعد سکرین دوبارہ چمکی تھی اور اس بار کال آرہی تھی ۔
" میں ہانیہ شہروز کا ہونے والا شوہر اور آپ ؟ "
میں اُسکا شوہر ۔ برابر میں بیٹھا زین حیران و پریشان تھا اور کال وہیں کٹ چُکی تھی اور نمبر بند ہو چُکا تھا ۔
" اللّه مدد کر بچا لے اُسے ، میری بیوی کو ، اب سب کچھ میں تیرے حوالے کرتا ہوں ۔ "
" یہ کب ہوا ؟ اور اب یہ مت کہنا بعد میں بتاؤنگا ، مجھے ابھی بتاؤ ؟ " زین نے پوچھا ۔
" اچھا بتاتا ہوں ۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہوا تو کچھ بھی نہیں ،
بس تھوڑا سا مان ٹوٹا ہے ،
تھوڑے سے لوگ بچھڑے ہیں ،
تھوڑے سے خواب بکھرے ہیں ،
بس تھوڑی سی نیندیں اڑ گئیں ہیں ،
تھوڑی سی خوشیاں چھن گئی ہیں ،
ہوا تو کچھ بھی نہیں ،
بس اپنا آپ گنوایا ہے ،
آنکھوں کو برسنا سکھایا ہے ،
چاہتوں کا صلہ پایا ہے ،
ہوا تو کچھ بھی نہیں ،
بس کسی اپنے نے رلایا ہے !!
" زندگی کی کتاب سے کچھ ورق الٹ گئے تھے اور ماضی کا صفحہ ایک دم سے کھل گیا تھا ۔ "
" یہ سب کیا ہے ؟ نکاح خُوا اِدھر ؟ لیکن کیوں ؟ "وہ حیران و پریشان اُس سے پوچھ رہی تھی ۔
ہاں کیونکہ ابھی ہمارا نکاح ہوگا ؟ 
" ارسل ایسا کیوں کر رہے ہیں آپ ؟ آپ چلیں گھر ، میں وعدہ کرتی ہوں امی اور بابا ہماری شادی کے لئے مان جائیں گے ۔" وہ اس سے مِنتیں کر رہی تھی ۔
" تمہارے لئے اچھا یہی ہوگا کہ تم اپنا منہ بند رکھو ۔ مس ہانیہ شہروز اور اگر اپنی عزت چاہتی ہو تو شرافت سے نکاح کے لئے تیار ہوجاؤ ۔ " وہ اسے دھمکا رہا تھا ۔
میں نکاح کے لئے تیار ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آپ میرے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں کر سکتے ۔  
پہلی بات یہ کہ تم نے اتنی آسانی سے مجھ سے نکاح کے لئے ہاں کیسے کردی ؟ وہ حیران تھا 
"کیونکہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں ۔"وہ اسے زور دار تھپپڑ کھینچ کر مارتا ہے 
" اب بتاؤ اب بھی مجھ سے محبت کرتی ہو ؟ "
" ہاں میں اب بھی آپ سے بیحد محبت کرتی ہوں اور ہمیشہ کرتی رہونگی ۔ "وہ پھر اسے زور دار تھپپڑ رسید دیتا ہے۔
" اب بتاؤ کیا ابھی بھی محبت باقی ہے ؟"
" ہاں ، اگر آپکو اور مارنا ہے تو آپ مجھے اور مار سکتے ہیں لیکن میرا جواب ہر بار یہی رہے گا کہ مجھے آپ سے بےتحاشا محبت ہے ، محبت تو محبت ہے ، جو مجھے ہمیشہ آپ سے رہے گی ، پھر چاہے آپ ناراض ہوں ، بےرخی دکھائیں ، چلائیں یا پھر مجھے ماریں ، میرا فیصلہ یہی رہے گا ۔۔۔ " وہ اپنے فیصلے پر اٹل تھی ۔
تم تیار ہو اور جلدی باہر آؤ ، وہ زور سے دروازہ بند کر کے باہر نکل جاتا ہے ۔ 
" آج مجھے پچھتاوا ہوتا ہے جن لوگوں پر ہم سب سے زیادہ خود سے زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور وہ وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں ہمارے اعتبار کو ٹھیس پہنچاتے ہیں دراصل پچھتاوا ان کے بدلنے کا نہیں بلکہ ہم شرمندہ ہوتے ہیں اپنے اعتبار کرنے پر ۔ " وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی ۔
ہانیہ شہروز کی ثابت قدمی اس کے مضبوط قدموں میں لرزش پیدا کر رہی تھی ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مت پوچھ صبر کی انتہا کہاں تک ہے ،
تو ستم کر تیری طاقت جہاں تک ہے ،
وفا کی امید کسی اور کو ہوگی ،
ہمیں تو دیکھنا ہے ،
تو بے وفا کہاں تک ہے۔!!
وہ سفید رنگ کے سوٹ پر لال چندری اوڑھی ہوئی تھی ، جس کے آدھے سرے کے گھونگھٹ سے چہرہ ڈھکا ہوا تھا ۔
نکاح خوا نے جیسے ہی اپنے الفاظ شروع کیے ہانیہ نے اپنے ہونٹ بھینچے چندری کے نیچے اسکا چہرہ مکمل طور پر بھیگا ہوا تھا ۔
" کیا آپکو ارسل ہمدانی وَلد سعد ہمدانی سے پانچ لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت یہ نکاح قبول ہے ؟ " نکاح خوا نے پوچھا 
قبول ہے ۔
" کیا آپکو ارسل ہمدانی سے یہ نکاح قبول ہے ؟ "
" قبول ہے ۔ "
" کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟ "
" قبول ہے ۔ "
" بارک اللّه فی ۔ اللّه یہ نکاح آپ دونوں کے حق میں بہتر کرے ۔"
وہ اندر کمرے میں گئی ، آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اُسنے اپنے آپکو دیکھا ، کس نے سوچا تھا کہ ، میں ارسل ہمدانی کا نصیب ، اِس طرح بنونگی ، کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایک رات میں مجھ پر کیا کچھ بیت جاۓ گا اور یوں اچانک چند گھنٹوں میں مجھے ارسل ہمدانی کے نام کردیا جاۓ گا ۔ یا اللّه مجھے صبر دے ۔ 
سنو ! میں جارہا ہوں ، اگر غلطی سے بھی تم نے شور کیا یا یہاں سے کہیں جانے کی کوشش کی تو یاد رکھنا یہ بدمعاشوں کا محلہ ہے ، یہاں سے باہر جاؤگی تو اپنی عزت سے ہاتھ دھو بیٹھو گی ، اگر اپنی عزت پیاری ہو تو یہاں سکون سے رہو ، میں تمہارا شوہر ہوں ، میرے پاس پھر بھی تمہاری عزت محفوظ ہے لیکن یہاں کے بدمعاش تمہارا خیال نہیں کریں گے ، ان کے لئے صرف اپنی بہن ، بیٹیوں کی عزت پیاری ہوتی ہے دوسروں کی نہیں اور یہاں کھانے ، پینے کی اشیا پڑی ہیں ، تم کھا سکتی ہو ۔ یہ بول کر وہ بزدل وہاں سے روانہ ہوگیا ۔
یا اللّه یہ مجھ پر کیسی آفت آ گئی ہے کہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہی میرے خلاف ہو گیا ہے ، یا اللّه میں اس سے اتنی محبت کرتی ہوں پھر کیوں ہوا ایسا ، وہ کیوں ایسا کر رہا ہے ۔میں جانتی ہوں ہر کوئی میرے بارے میں غلط سوچ رہا ہوگا ، میرے کردار پر ، میرے باپ پر انگلی اٹھا رہا ہوگا لیکن جب اللّه میرے ساتھ ہے تو مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے ۔ میری تکلیفوں کو دور کردے اللّه پاک ، تو نے مجھے آج تک پاک رکھا ہے ، میری عزت کی حفاظت کی ہے بس آگے بھی تو مجھے محفوظ رکھنا ، ہر بری آفت سے ، ہر بری نظر سے اور ہر بری بلا سے ۔ آمین ثم آمین ۔ وہ روتی سسكتی دعا کر رہی تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نمک کو ہاتھ میں لے کر ، ستمگر سوچتے کیا ہو ،
ہزار زخم ہیں دل پر ، جہاں چاہو چھڑک ڈالو ۔۔۔!
جنوری کی ہلکی سرد رات ، بارش کا موسم ، پہلی بارش اور بےحد خاموشی ۔۔ بہت دلفریب منظر تھا ۔" جب اُسے شدّت سے اُسکی یاد ستا رہی تھی اور وہ اپنے ہاتھوں کو سگریٹ سے جلا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اُسنے بہت غلط کیا ، اُنہی ہاتھوں سے میں نے اُس پر ہاتھ اٹھایا تھا اور اب یہ ہاتھ نہیں بچینگے اور جس کسی نے اُس کے ساتھ غلط کرنے کا سوچا ، وہ بھی نہیں بچے گا ، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ پیار کا ناٹک کرتے کرتے مجھے اُس سے بےحد عشق ہو جاۓ گا ، میں پیار کا بھوکا شخص پیار میں مارا گیا ، اُسکو تکلیف دے کر میں خود تکلیف میں ہوں ۔ " وہ روتا سسکتا رہا تھا ، وہ پوری رات سو نہیں پایا تھا اسے اسکی یاد ستا رہی تھی ، آنسوں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے نہ جانے کیسا قرب اس کےاندر تھا ، شاید اسے پچھتاوا تھا جو اسے اندر ہی اندر گلٹ میں مبتلا کر رہا تھا ۔۔
" تم خوش رہو ، نہ کرو یہ سب ، اللّه پاک مجھے ہر چیز کا پھل دیگا ، میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں اور ارسل میں تمہیں اس طرح سے اداس نہیں دیکھ سکتی ۔ " وہ اسے خواب میں خوش باش نظر آئی تھی ۔
" کچھ کھایا ہے یا نہیں ؟میں کچھ پوچھ رہا ہوں ؟ " وہ کافی غصّے میں لگ رہا تھا
" نہیں ۔ " آگے اسنے کچھ نہیں کہا تھا ۔
" ویسے میں اِس ماتم کی وجہ جان سکتا ہوں ؟ جس کی وجہ سے تم نے کھانا نہیں کھایا ۔۔ "وہ اکتاۓ ہوۓ لہجے میں اسے کہہ رہا تھا ۔
" ماتم کی وجہ آپ خود اچھے سے جانتے ہیں اور یہ " تم " کیا ہے ؟ آپ عزت سے پیش آنا بھی بھول گۓ ہیں کیا ؟ " وہ اس بار برداشت نہیں کر پائی تھی ۔
" یہ تم مجھے مت سکھاؤ کہ مجھے تمہیں کیا کہنا ہے ، کیا نہیں ، یہ تمہارے لئے اچھا ہوگا ورنہ تم جانتی ہو میں کیا کر سکتا ہوں ۔ " وہ اسے دھمکا رہا تھا ۔
" چلیں اب آپ بتاۓ کہ آپ کیا کر سکتے ہیں ؟ اب میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں ؟ " وہ جانتی تھی ، ارسل ہمدانی خود کو تباہ کر سکتا ہے لیکن ہانیہ شہروز پر ایک آنچ بھی آنے نہیں دے سکتا ، کیوں کہ وہ انتقام کے اُس جنون سے نکل آیا تھا اور محبت اس کے دل پر دستک دے چکی تھی ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


محبت کیا ہے؟
سمجھو تو احساس
دیکھو تو رشتہ
کہو تو لفظ
چاھو تو زندگی
کرو تو عبادت
نجھاؤ تو وعدہ
اور مل جاۓ تو۔۔۔ جنت
" اگر میں تمہیں آزاد کردوں یہاں سے ، اِس قید سے تو تم کیا کرو گی ، اپنے گھر والوں سے کیا کہوگی ؟ " وہ اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔
" میں کہونگی کہ ایک بزدل انسان نے مجھے قید کر کے نکاح کر لیا اور میں اُس بزدل انسان سے محبت کرتی ہوں ۔" 
" کیا کہا تم نے ؟ میں بزدل ہوں ؟ تم نے ایسا کہا بھی کیسے ؟ " اُسکی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی ، آواز بھی شدّت جذبات کے زیراثر کپکپاتی ہوئی سی تھی ۔
" اگر تمہیں ایسا ہی لگتا ہے کہ میں نے تمہیں قید کر رکھا ہے تو میں تمہیں تمہاری خواہش کہ مطابق آزاد کر دونگا ، کیوں کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر محبت کامیاب ہو ، کچھ محبتوں کی تقدیر میں ہجر بھی لکھا ہوتا ہے ۔ " اسنے جذباتی انداز میں اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا ۔
" نہیں ۔۔ ایسا مت کہیں ۔ " بے اختیار اس کے لبوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ تڑپ اٹھی تھی ۔ 
" تم اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاؤ ہانیہ ، ویسے بھی میں اِس قابل نہیں ہوں کہ میرے ساتھ رہا جاۓ ۔" اس نے آہستہگی سے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹا کر کہا ۔
" تو پھردعا کریں کہ میں مر جاؤں ، مگر خدا کے لئے مجھ سے علیحدگی کا مت کہیں ۔ " اب کی بار آنسوں سے اسکی آنکھیں بھر آئی تھی ۔
" مرنا قبول ہے نہ تمہیں ؟ تو بس اس علیحدگی کو اپنی موت سمجھ کر قبول کر لو ۔ مگر اب یہ ہماری آخری ملاقات ہے ۔۔" وہ اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
" نہیں ایسا نہیں کہیں ۔ "وہ رو رہی تھی ۔
" رو کیوں رہی ہو ؟ "قریب آتے ہی اسنے بیتابی سے پوچھا ۔
" ایک دم اس سے لپٹتے ہوئے وہ رو پڑی ، آپ وعدہ کریں ، آپ آئندہ ایسا نہیں کہیں گے ، چاہے ہمارے درمیان ، بڑی سے بڑی لڑائی ہوجاۓ لیکن لفظ " علیحدگی " ہمارے درمیان کبھی نہیں آئے گا ، کیوں کہ آپ کے بغیر مجھے کچھ ہو جاۓ گا ، میں بچونگی نہیں ، میں خودخوشی کرلوں گی ، سمجھ آرہی ہے نہ آپ کے میری باتیں ۔ " اس کے منہ سے بےربط باتیں نکل رہیں تھیں ۔
" اچھا ، اب رو مت لیکن تم بھی مجھ سے وعدہ کرو کہ تم مجھ سے کوئی وجہ نہیں پوچھو گی کہ میں نے ایسا کیوں کردیا ۔ "
" میں وعدہ نہیں کر سکتی لیکن ہاں میں کوشش کرو گی ۔ "
" آپ میری سزا بھی بتا دیں جس سے میں آپ کو دی گئی ایک ایک تکلیف کا ازالہ کر سکوں ۔" وہ اپنی نظریں جھکاۓ ہوۓ بول رہا تھا ۔
" آج سے اور ابھی سے آپکی سزا یہ ہے کہ آپ اپنی ساری زندگی میرے ساتھ گزارے گے اور آپکی زندگی میں میرا کوئی نعم البدل نہیں ہو گا اور آپکی محبت ہمیشہ میرے لئے خالص رہے ۔"
" بس یہی سزا ہے میری ؟ " وہ سزا سن کر مسکرا اٹھا تھا ۔
" جی جناب ۔ "
وہ اُسکی زندگی تھا ، وہ اس کے ساتھ ساری زندگی رہنا چاہتی تھی خود سے زیادہ بھروسہ تھا ، اسے اس پر ، اسے یقین تھا کہ ارسل ہمدانی اس کے ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتا تھا اور اس سے " علیحدگی " کا سوچنا اس کے لئے ایک گناہ تھا ، جو گناہ وہ کبھی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



" تو نے اتنا سب کیوں کیا اس کے ساتھ ؟ " کیا میں جان سکتا ہوں ؟ وہ اُس سے پوچھ رہا تھا ۔
" میں اس کے پیچھے کی کوئی وجہ تمہیں نہیں بتا سکتا ، اب تک یہ سب میں نے ہانیہ کو بھی نہیں بتایا ، یہ میری کچھ پرسنل وجہ ہے ۔ "
" چلو نہیں بتاؤ لیکن ایک بات کہونگا تم نے بہت غلط کیا ، وہ تم سے محبت کرتی تھی اور تم ، تم نے اسے دھوکہ دیا ۔ " وہ اسے اسکی غلطی کا احساس دلا رہا تھا ۔۔
" یار مجھے اندازہ ہے میں نے بہت غلط کیا اور میں احساسِ جرم مبتلا ہوں ، انشااللہ اب میں اپنی غلطی سدھار لونگا ۔ " اسے اپنی غلطی کا احساس تھا ۔
" ابھی بس مجھے پتہ چل جاۓ کہ میری ہانیہ کہاں ہے اور کون ہے جس نے اسے یوں قید کر رکھا ہے ؟ " اس کی آنکھوں میں آنسوؤں بھرے ہوئے تھے ۔
" یار صبر رکھ ، جب تیری نیت اچھی ہے تو وہ مل جاۓ گی تو اب ٹینشن نہیں لے ۔"
" کیسے نہ لوں ٹینشن ؟ بیوی ہے وہ میری ، یہ سوچ سوچ کر میری جان نکل رہی ہے کہ وہ کیسی ہوگی ۔۔ " 
" یار جس نے بھی اسے کڈنیپڈ کیا ہے ، وہ کبھی بھی اسے نقصان نہیں پہنچائے گا کیونکہ وہ ہانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو تُو ٹینس مت ہو اور میرے انکل " کال سینٹر " میں ہوتے ہیں تو میں تمام انفارمیشن انہیں بھیجتا ہوں ، انشااللہ تیری بیوی کا جلد پتہ چل جاۓ گا ۔" وہ اسے مسلے کا حل بتا رہا تھا ۔
" شکریہ زین ، یار تم میری اتنی مدد کر رہے ہو ۔ میں خود بھی C.I.A میں ہوں بس دعا کرو نمبر trace ہوجاۓ " اسنے اسے بتایا تھا اور شکریہ ادا کیا تھا ۔
" دوستی میں کوئی شکریہ نہیں ، میرے دوست ۔ " وہ مسکرا رہا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کراچی کی سڑکوں پر پھرتے پھرتے اس کی ہمت جواب دے چکی تھی ، چھپا چھپا چھان مارا تھا لیکن اُسکا کہیں پر عطاء پتہ نہیں تھا ۔
" زین جلدی چل ؟ "
" کہاں ؟ "
" نمبر trace ہوگیا ہے ، وہ باڑا مارکیٹ کے پیچھے والے مکان میں ہے ۔"
تاریکی میں اٌسنے اپنے پاؤں کے نیچے کچھ محسوس کیا تھا ، اُسنے اپنے ہاتھ سے نیچے ٹٹولا تو اس کے ہاتھ میں ایک کنگن آیا جو ہانیہ کا تھا ، اب اسے یقین ہو گیا کہ ہانیہ اسے مل جاۓ گی ، اسنے آہستہ آہستہ اپنے قدم سیڑهیوں کی طرف بڑھائے تھے ، آندھی کی وجہ سے سب کچھ دھندلا نظر آرہا تھا اچانک ایک ہوا کا تیز جھونکا اس سے ٹکرایا تھا ، اسکو محسوس ہونے والی گھٹن اب ختم ہو چکی تھی ۔
" باس شاید اوپر کوئی آرہا ہے ۔ "وہ اسے بتا رہا تھا ۔
پیچھے سے اسکی پشت پر ایک زور دار لات پڑی تھی اور وہ دور جا کر گرا تھا ، آگے بڑھتا علی پاشا اب آگے آیا تھا ۔
" سر آپ ؟ " وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
" تم ، کیا تم نے یہ کڈنیپنگ کی ہے علی ؟ اسے یقین نہیں آرہا تھا ۔ " اسے وہاں دیکھ کر اسکا تو دماغ ہی گھوم کر رہ گیا تھا 
" یس سر ، اصل میں بات ایسی ہے کہ ۔ " وہ اپنی بات پوری نہیں کر پایا تھا 
" مجھے تمہاری ایک بات بھی نہیں سننی ہے ۔ شٹ اپ علی ، تم جانتے بھی ہو یہ کون ہیں ؟ یہ ہانیہ ہمدانی ہے اور تم نے بہت غلط کیا ۔ " وہ کافی زیادہ غصّے میں تھا ۔
سر آپ انہیں لے جائیں , مجھے بلکل بھی نہیں پتا تھا کہ یہ ، یہ آ ، آپکی وائف ہیں ۔ اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو میں ایسا کبھی نہیں کرتا ۔ وہ ہکلا رہا تھا ۔
زین ، دیکھو ہانیہ کو ہوش میں لاؤ ۔
" ہاں میں جارہا ہوں ۔ اسنے پانی کے چھنٹے اس پر ڈالے ۔"
" تم ؟ یہاں زین ؟ اچھا ہوا تم آگئے ۔ وہ رو رہی تھی ۔ "
چلو گاڑی میں ، تمہارے گھر والے بھی پریشان ہونگے ۔ اسنے ہانیہ کو کہا تھا ۔
" نہیں ، مجھے نہیں جانا گھر ۔ " وہ چہرے سے گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی کہ تبہی پیچھے سے آتے ارسل کو دیکھ کر اسکے چہرے کی پریشانی کچھ کم ہوئی تھی ۔
ارسل اچھا ہوا آپ میرے پاس ہیں ، ورنہ مجھے تو لگا تھا کہ میں نے آپکو ہمیشہ کے لئے کھو دیا ہے ۔ اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھی ۔
ارے میری جان ، آپ ابھی relax کریں ، ہم اس topic پر بعد میں بات کریں گے ۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
To be continued

   10
4 Comments

Zoya khan

25-Sep-2022 12:00 PM

ماشاءاللہ❤️ کیا بات ہے

Reply

Simran Bhagat

23-Sep-2022 06:32 PM

Mashallah 🌹🌹Yeh episode bhi pahle episode Ki Tarah bahut hi Khubsurat likha hai bahut Achcha Laga padhakar aap next episode kab kab Dal rahi hai ab Hamen basebri se Intezar hai aapke next episode bhi jaldi se aap apna episode dalen Taki Ham use padh sake 👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻

Reply

Muskan Malik

23-Sep-2022 06:14 PM

ماشاءاللہ❤️ کیا بات ہے بہت شاندار لکھا ہے کمال ہے🔥🔥🔥

Reply